Asrar Zaidi

اسرار زیدی

اسرار زیدی کی غزل

    انجانے لوگوں کو ہر سو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہوں

    انجانے لوگوں کو ہر سو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہوں کیسی بھیڑ ہے پھر بھی خود کو تنہا تنہا دیکھ رہا ہوں دیواروں سے روزن روزن کیا کیا منظر ابھرے ہیں سورج کو بھی دور افق پر جلتا بجھتا دیکھ رہا ہوں جس کو اپنا روپ دیا اور جس کے ہر دم خواب بنے کب سے میں اس آنے والے کل کا رستا دیکھ رہا ...

    مزید پڑھیے

    بستی بستی گھور اندھیرا سونا سونا جادہ تھا

    بستی بستی گھور اندھیرا سونا سونا جادہ تھا شب کے پچھلے پہر کا سناٹا کچھ اور زیادہ تھا صحن چمن میں روش روش پر آس کے پھول اگائے تھے لیکن یہ محسوس ہوا ہر منظر پیش افتادہ تھا لفظ کوئی آسیب نہ تھے لوگ اس کی صدا سے کیوں ڈرتے وقت کے اندھے کنوئیں کا یہ آشوب تو سیدھا سادہ تھا جیتے جاگتے ...

    مزید پڑھیے

    دل نہ دے ساتھ تو غم کیسے سہا جائے گا

    دل نہ دے ساتھ تو غم کیسے سہا جائے گا کہ اسی گھر میں یہ سیلاب بلا جائے گا اک مسافر ہے وہ اس کی کوئی منزل ہی نہیں جس طرف بھی قدم اٹھیں گے چلا جائے گا میں تو اس جبر مسلسل میں بھی لب بستہ نہیں یوں سمجھ لے ترا ہر تیر خطا جائے گا برف پگھلے گی تو موسم بھی بدل جائیں گے پو پھٹے گی تو اجالا ...

    مزید پڑھیے

    وہ چاند تھا بادلوں میں گم تھا

    وہ چاند تھا بادلوں میں گم تھا وہ عکس تھا پانیوں میں گم تھا دستک کی صدا تو آ رہی تھی میں اپنے ہی واہموں میں گم تھا چہرے پہ محبتیں سجی تھیں دل اپنی ہی نفرتوں میں گم تھا مٹی میں نمی کہاں سے آتی پانی تو سمندروں میں گم تھا دربار میں کرسیاں سجی تھیں ہر شخص عقیدتوں میں گم تھا اس عہد ...

    مزید پڑھیے

    آنے والی کل کی دے کر خبر گیا یہ دن بھی

    آنے والی کل کی دے کر خبر گیا یہ دن بھی ماہ وصال کی شریانوں میں اتر گیا یہ دن بھی لمحہ لمحہ ساعت ساعت پل پل میں تقسیم ہوا ریزہ ریزہ ہوتے ہوتے بکھر گیا یہ دن بھی اس کی تابانی پر کتنے ہی سورج قربان ہوئے اپنے ہونے کا دکھ سہہ کر مگر گیا یہ دن بھی سرد ہوا کا جھونکا تھا جو سناٹو کو چیر ...

    مزید پڑھیے

    ترے التفات کی بات تھی تری بے رخی کے گلے نہ تھے

    ترے التفات کی بات تھی تری بے رخی کے گلے نہ تھے تجھے شاید اس کی خبر تو ہو کہ ہمارے ہونٹ سلے نہ تھے کسی اہل درد سے پوچھیے ذرا اس چمن کا معاملہ وہ چمن کہ فصل بہار میں بھی جہاں پہ پھول کھلے نہ تھے یہ رہ طلب کی مسافتیں کہیں خار ہے کہیں دار ہے سر کوئے یار کھڑے تھے یوں کہ قدم ہمارے ہلے نہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھے بھالے رستے تھے

    دیکھے بھالے رستے تھے پھر بھی لوگ بھٹکتے تھے دریا صحرا اور سراب منظر سارے پھیکے تھے اک سنجوگ کا قصہ تھا کتنے بندھن ٹوٹے تھے دل تو اس کا اجلا تھا لیکن کپڑے میلے تھے نظریں دھندلی دھندلی تھیں چہرے نیلے پیلے تھے گلیاں کوچے سب جل تھل ٹوٹ کے بادل برسے تھے کتنے چاند گہن میں ...

    مزید پڑھیے

    مصروف ہم بھی انجمن آرائیوں میں تھے

    مصروف ہم بھی انجمن آرائیوں میں تھے گھر جل رہا تھا لوگ تماشائیوں میں تھے کتنی جراحتیں پس احساس درد تھیں کتنے ہی زخم روح کی گہرائیوں میں تھے کچھ خواب تھے جو ایک سے منظر کا عکس تھے! کچھ شعبدے بھی اس کی مسیحائیوں میں تھے تپتی زمیں پہ اڑتے بگولوں کا رقص تھا سات آسمان قہر کی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تصویر یہاں آئنہ خانوں میں نہیں

    کوئی تصویر یہاں آئنہ خانوں میں نہیں اب ہدف کون ہو جب تیر کمانوں میں نہیں بے حسی جبر مسلسل کا نتیجہ ٹھہری حرف مصلوب ہوئے نطق زبانوں میں نہیں لوگ کچھ اتنے حقیقت کے پرستار ہوئے یعنی وہ شخص نیا ہے جو پرانوں میں نہیں ہم کہ ماضی بھی ہیں امروز بھی ہیں فردا بھی ہم سبھی کچھ ہیں مگر قید ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3