ٹوٹے ہوئے پیڑ گن رہا ہوں

ٹوٹے ہوئے پیڑ گن رہا ہوں
میں اپنے پروں کو دیکھتا ہوں


لب بستہ ہوں پھر بھی بولتا ہوں
یار خود سے نبرد آزما ہوں


بستی کوئی رہ نہ جائے باقی
در در پہ صدا لگا چکا ہوں


ہونٹوں پہ سکوت خامشی ہے
لمحوں کے حصار میں گھرا ہوں


رستے ہیں تمام اٹے اٹے سے
میں کیسے کہوں گریز پا ہوں


اے نہر فرات دے گواہی
پیاسوں کا خراج مانگتا ہوں


شاید کوئی شہسوار نکلے
صحرا پہ کمند ڈالتا ہوں


خود پر یقین اٹھ چلا ہے
اب رات ڈھلی تو سو گیا ہوں