یوں تو وہ مجھ سے سوا میرا بھلا چاہتا ہے

یوں تو وہ مجھ سے سوا میرا بھلا چاہتا ہے
جانے کیوں چاہتا ہے مجھ سے وہ کیا چاہتا ہے


سالہا سال سے میں تو سفر خواب میں ہوں
وہی ناداں ہے کہ تعبیر وفا چاہتا ہے


ہجر کی رات میں بھی درد کے آشوب میں بھی
دل اسے چاہتا رہتا ہے سدا چاہتا ہے


کس طرح سے دل وحشی کو بھلا سمجھاؤں
وہ تو ہر دام جدا رنگ جدا چاہتا ہے


نا تراشیدہ بصارت بھی بصیرت ٹھہری
یہ نہ ہونا تھا مگر یہ بھی ہوا چاہتا ہے


اس کو دشمن بھی کہوں اس سے عداوت بھی رکھوں
اس سے میں پیار کروں دل تو بڑا چاہتا ہے