گھر کی صورت جو بھی ہو اس پر ہراساں میں نہیں

گھر کی صورت جو بھی ہو اس پر ہراساں میں نہیں
در مقفل ہیں تو دیواروں سے لرزاں میں نہیں


تجھ میں ہمت ہے سو پھر شیشے میں مجھ کو بھی اتار
ہاں مگر یہ جان لے اتنا بھی آساں میں نہیں


نفرتوں کی تہ میں کتنی چاہتیں ہیں یہ تو سوچ
تو گریزاں ہو تو ہو تجھ سے گریزاں میں نہیں


روشنی دل میں اگر ہو اک ستارہ ہی بہت
ڈوبتے سورج کے منظر سے پریشاں میں نہیں


میں کہ اپنی ذات میں شعلہ بھی ہوں شبنم بھی ہوں
پھر بھی اپنے آپ سے دست و گریباں میں نہیں


راستے کے پیچ و خم میرے لہو کی تاک میں
بخت کے اندھے کنویں میں پا بجولاں میں نہیں


موسموں کی دھوپ سے کجلا گیا چہرے کا رنگ
آدمی ہوں بے نیام برق و طوفاں میں نہیں


سوچتا ہوں کس خرابے میں مجھے لایا گیا
اپنے ہونے پر بہ ہر صورت پشیماں میں نہیں