Aslam Haneef

اسلم حنیف

پاکستانی شاعر، مروجہ شعری اصناف میں نئے ہیئتی تجربے کیے

Pakistani poet, made experiments in poetical genres

اسلم حنیف کی غزل

    خوں وراثت کا رگوں میں فخر کے قابل ہوا

    خوں وراثت کا رگوں میں فخر کے قابل ہوا جب مرے ہی خاکداں سے میرا سر حاصل ہوا ہر جزیرہ برف کا میری انا کی مملکت راہ میں پھر کوہ نا معلوم کیوں حائل ہوا ریت کے دریا سے قائم تھی امید معجزہ تشنگی میں جو قدم آگے بڑھا حاصل ہوا سایہ پانی میں چلا جب مجھ کو تنہا چھوڑ کر میرا منظر ہی مرے ...

    مزید پڑھیے

    زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب

    زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب بھوگ رہا ہوں مدت سے تنہائی کا کرب یہ تو سرخ سلگتا سورج ہی جانے ہے کتنا بھیانک ہوتا ہے تنہائی کا کرب تیز ہوا میں تالی بجانے والے پتو بانجھ نہ کر دے پیڑوں کو شہنائی کا کرب ذہن کا میرے روز بدل دیتا ہے موسم شام ڈھلے سوندھا سوندھا انگنائی کا ...

    مزید پڑھیے

    جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک

    جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک آج کی شب خود سے الجھیں دیر تک ساتھیوں میں جب فراست ہی نہیں اک پہیلی کیا بجھائیں دیر تک گفتگو کا اک طریقہ یہ بھی ہے آؤ ہم خاموش بیٹھیں دیر تک یہ تمہارے ظلم کی توہین ہے شہر میں چیخیں نہ گونجیں دیر تک رات کی بانہیں ہمیں بھینچے رہیں اور پھر ہم خود کو ...

    مزید پڑھیے

    لوؤں کے جشن زار میں خزاں کو حال آئے گا

    لوؤں کے جشن زار میں خزاں کو حال آئے گا مرے شجر کے سائے پر اگر زوال آئے گا درون شہر جہل اگر جلیں گی حق کی مشعلیں تو خواب خوردہ ساعتو تمہیں ملال آئے گا جدا جدا رہا ہے کیا فقیر راہ نیند میں کہ زندگی کے بھاؤ پر نہ اب اچھال آئے گا پئے فرار رشوتیں عطا ہوں پاسبان کو فصیل شہر سے پرے یہی ...

    مزید پڑھیے

    غلط بتاتے ہو تم سلف کی شجاعتیں سب

    غلط بتاتے ہو تم سلف کی شجاعتیں سب تو آؤ دریا میں غرق کر دیں حکایتیں سب یہ سوچتا ہوں میں پڑھ رہا ہوں کتاب کیسی دھواں دھواں ہیں لبوں کو چھوکر عبارتیں سب نظام انصاف و عدل پر یہ نہ جانے کیسا زوال آیا برہنہ ہو کر سسک رہی ہیں صداقتیں سب جو فن کو بکواس کہنے والے سنائیں غزلیں گرو کہیں ...

    مزید پڑھیے

    رفیق دوست محب مجھ کو شاق سب ہی تھے

    رفیق دوست محب مجھ کو شاق سب ہی تھے اگرچہ کہنے کو یہ ہم مذاق سب ہی تھے میں امتحان کی کاپی کو سادہ چھوڑ آیا دماغ میں تو سیاق و سباق سب ہی تھے تمام رات رہا دل میں حبس کا منظر کھلے ہوئے تو در اشتیاق سب ہی تھے اسی محل سے تھی وابستہ شہر کی عظمت شکستہ یوں تو در و بام و طاق سب ہی ...

    مزید پڑھیے

    سامنے شاہ وقت کے اسلمؔ کون کہے یہ بات

    سامنے شاہ وقت کے اسلمؔ کون کہے یہ بات چور نہ تھے فن کار تھے ہم پھر کاٹ لیے کیوں ہات اس کا شیوہ اس کی فطرت رشتوں کی توہین ننگ انسانیت ہیں سب اس کے احساسات کنڈلی مارے بیٹھا ہوا تھا اس کی ذات میں کھوٹ آ کر واپس ہو جاتی تھی رشتوں کی سوغات میری خموشی پر طاری ہے کیسا عالم کشف دشت بدن ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک کتاب نجومی غلط بتاتا ہے

    ہر اک کتاب نجومی غلط بتاتا ہے مری حیات کا جب زائچہ بناتا ہے کسی حویلی میں جب وحشتیں پنپتی ہیں بدن پہ سبزۂ نورستہ لہلہاتا ہے ہماری نیند میں گرداب بننے لگتے ہیں اداس کمرہ عجب قہقہے لگاتا ہے مہیب تیرہ گپھا میں بدن ہے سہما ہوا بس ایک جگنو ہے جو حوصلہ بڑھاتا ہے نہ جانے کتنے نئے ...

    مزید پڑھیے

    سامنے اک کتاب ادھ کھلی اور میں

    سامنے اک کتاب ادھ کھلی اور میں بے سبب شمع جلتی ہوئی اور میں بے صدا ایک نغمے کے ہیں منتظر دف بجاتی ہوئی خامشی اور میں وقت کی کوکھ کا بر محل سانحہ یہ جہاں مضطرب زندگی اور میں کچھ پرند آسماں سے اترتے ہوئے لطف اندوز جن سے ندی اور میں وقت کی شاخ پر خوش نما پھول تھے وہ گلی حسن کی ...

    مزید پڑھیے

    جب حق دل و دماغ میں بھرپور رچ گیا

    جب حق دل و دماغ میں بھرپور رچ گیا میرے قدم جہاں پڑے کہرام مچ گیا ہر بار اس سے قوت اظہار چھن گیا جب بھی میں اس کی بزم میں لے کر پہنچ گیا میں نے تو اپنے در پہ لکھایا تھا اپنا نام لیکن کوئی پڑوسی اسے بھی کھرچ گیا دریا کی تہ چٹان کی زد کو بھی سہہ گئی لیکن یہ کیا کہ سطح پہ اک شور مچ ...

    مزید پڑھیے