خوں وراثت کا رگوں میں فخر کے قابل ہوا
خوں وراثت کا رگوں میں فخر کے قابل ہوا
جب مرے ہی خاکداں سے میرا سر حاصل ہوا
ہر جزیرہ برف کا میری انا کی مملکت
راہ میں پھر کوہ نا معلوم کیوں حائل ہوا
ریت کے دریا سے قائم تھی امید معجزہ
تشنگی میں جو قدم آگے بڑھا حاصل ہوا
سایہ پانی میں چلا جب مجھ کو تنہا چھوڑ کر
میرا منظر ہی مرے احساس کا قاتل ہوا
پھر ہوا کی مٹھیوں سے ریت برسی صحن میں
پھر بکھرنے کا نظر کو ذائقہ حاصل ہوا
تم انا کے زعم میں انکار فن کرتے تو ہو
اور اگر اس عہد کا میں ہی حد فاصل ہوا