زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب
زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب
بھوگ رہا ہوں مدت سے تنہائی کا کرب
یہ تو سرخ سلگتا سورج ہی جانے ہے
کتنا بھیانک ہوتا ہے تنہائی کا کرب
تیز ہوا میں تالی بجانے والے پتو
بانجھ نہ کر دے پیڑوں کو شہنائی کا کرب
ذہن کا میرے روز بدل دیتا ہے موسم
شام ڈھلے سوندھا سوندھا انگنائی کا کرب
رہ جا کر بے چہرہ لوگوں کی بستی میں
مسخ شدہ آنکھوں میں رکھ بینائی کا کرب
توڑ رہا ہے کیوں متحیر آئینے اسلمؔ
غور طلب ہے تیری خود آرائی کا کرب