ہر اک کتاب نجومی غلط بتاتا ہے

ہر اک کتاب نجومی غلط بتاتا ہے
مری حیات کا جب زائچہ بناتا ہے


کسی حویلی میں جب وحشتیں پنپتی ہیں
بدن پہ سبزۂ نورستہ لہلہاتا ہے


ہماری نیند میں گرداب بننے لگتے ہیں
اداس کمرہ عجب قہقہے لگاتا ہے


مہیب تیرہ گپھا میں بدن ہے سہما ہوا
بس ایک جگنو ہے جو حوصلہ بڑھاتا ہے


نہ جانے کتنے نئے خوف ڈسنے لگتے ہیں
وہ مجھ سے ملنے کا جب سلسلہ بڑھاتا ہے


اسے حریف کہو وصل رت کے نغموں کا
درخت سے جو پرندے اڑائے جاتا ہے