Aslam Haneef

اسلم حنیف

پاکستانی شاعر، مروجہ شعری اصناف میں نئے ہیئتی تجربے کیے

Pakistani poet, made experiments in poetical genres

اسلم حنیف کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    خوں وراثت کا رگوں میں فخر کے قابل ہوا

    خوں وراثت کا رگوں میں فخر کے قابل ہوا جب مرے ہی خاکداں سے میرا سر حاصل ہوا ہر جزیرہ برف کا میری انا کی مملکت راہ میں پھر کوہ نا معلوم کیوں حائل ہوا ریت کے دریا سے قائم تھی امید معجزہ تشنگی میں جو قدم آگے بڑھا حاصل ہوا سایہ پانی میں چلا جب مجھ کو تنہا چھوڑ کر میرا منظر ہی مرے ...

    مزید پڑھیے

    زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب

    زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب بھوگ رہا ہوں مدت سے تنہائی کا کرب یہ تو سرخ سلگتا سورج ہی جانے ہے کتنا بھیانک ہوتا ہے تنہائی کا کرب تیز ہوا میں تالی بجانے والے پتو بانجھ نہ کر دے پیڑوں کو شہنائی کا کرب ذہن کا میرے روز بدل دیتا ہے موسم شام ڈھلے سوندھا سوندھا انگنائی کا ...

    مزید پڑھیے

    جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک

    جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک آج کی شب خود سے الجھیں دیر تک ساتھیوں میں جب فراست ہی نہیں اک پہیلی کیا بجھائیں دیر تک گفتگو کا اک طریقہ یہ بھی ہے آؤ ہم خاموش بیٹھیں دیر تک یہ تمہارے ظلم کی توہین ہے شہر میں چیخیں نہ گونجیں دیر تک رات کی بانہیں ہمیں بھینچے رہیں اور پھر ہم خود کو ...

    مزید پڑھیے

    لوؤں کے جشن زار میں خزاں کو حال آئے گا

    لوؤں کے جشن زار میں خزاں کو حال آئے گا مرے شجر کے سائے پر اگر زوال آئے گا درون شہر جہل اگر جلیں گی حق کی مشعلیں تو خواب خوردہ ساعتو تمہیں ملال آئے گا جدا جدا رہا ہے کیا فقیر راہ نیند میں کہ زندگی کے بھاؤ پر نہ اب اچھال آئے گا پئے فرار رشوتیں عطا ہوں پاسبان کو فصیل شہر سے پرے یہی ...

    مزید پڑھیے

    غلط بتاتے ہو تم سلف کی شجاعتیں سب

    غلط بتاتے ہو تم سلف کی شجاعتیں سب تو آؤ دریا میں غرق کر دیں حکایتیں سب یہ سوچتا ہوں میں پڑھ رہا ہوں کتاب کیسی دھواں دھواں ہیں لبوں کو چھوکر عبارتیں سب نظام انصاف و عدل پر یہ نہ جانے کیسا زوال آیا برہنہ ہو کر سسک رہی ہیں صداقتیں سب جو فن کو بکواس کہنے والے سنائیں غزلیں گرو کہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    بجوکے

    نکتہ دان ادب تم کو کیا ہو گیا لہلہاتی ہوئی ذہن کی فصل میں کس لئے کر رہے ہو بجوکے کھڑے اس طرف وہ چرندے نہیں آئیں گے اشتہا کی جو بے چینیوں کو لئے بوتے رہتے ہیں ہر سمت بربادیاں نکتہ دان ادب ذہن کی فصل کی ہو سکے تو بہاریں مجسم کرو خوف کے استعاروں سے کیا فائدہ

    مزید پڑھیے

    باطنی چھت

    شہاب ثاقب کا کھیل دل کی اگر فضاؤں کو خیرہ کر دے تو میں سمجھ لوں کہ میرے اندر کشش کی سرحد پہ ایک چھت ہے کہ جس میں پیہم مسرتوں کے ہزاروں تارے چمک رہے ہیں مگر قدامت کی انتہا کو جو چھو چکے ہیں شکستہ ہو کر ہر ایک لمحہ بکھر رہے ہیں

    مزید پڑھیے