جب حق دل و دماغ میں بھرپور رچ گیا

جب حق دل و دماغ میں بھرپور رچ گیا
میرے قدم جہاں پڑے کہرام مچ گیا


ہر بار اس سے قوت اظہار چھن گیا
جب بھی میں اس کی بزم میں لے کر پہنچ گیا


میں نے تو اپنے در پہ لکھایا تھا اپنا نام
لیکن کوئی پڑوسی اسے بھی کھرچ گیا


دریا کی تہ چٹان کی زد کو بھی سہہ گئی
لیکن یہ کیا کہ سطح پہ اک شور مچ گیا


کل رات ان غریبوں کو قے کیوں نہ آ سکی
کھانا امیر شہر کا کیوں ان کو پچ گیا


اسلمؔ کرامتوں میں کروں گا شمار اگر
میرا خلوص تہمت یاراں سے بچ گیا