لوؤں کے جشن زار میں خزاں کو حال آئے گا
لوؤں کے جشن زار میں خزاں کو حال آئے گا
مرے شجر کے سائے پر اگر زوال آئے گا
درون شہر جہل اگر جلیں گی حق کی مشعلیں
تو خواب خوردہ ساعتو تمہیں ملال آئے گا
جدا جدا رہا ہے کیا فقیر راہ نیند میں
کہ زندگی کے بھاؤ پر نہ اب اچھال آئے گا
پئے فرار رشوتیں عطا ہوں پاسبان کو
فصیل شہر سے پرے یہی نکال آئے گا
خبر نہ تھی کہ ذات سے کروں گا جب مکالمہ
تو ہر جواب پر کوئی نیا سوال آئے گا
دماغ و دل سے مفلسو یہ واہمہ نکال دو
امیر شہر نیکیاں کنویں میں ڈال آئے گا
عروج کے سرور میں جو غرق ہیں یہ بستیاں
یہاں زوال آئے گا تو بے مثال آئے گا