Ashok Goyal Ashok

اشوک گویل اشوک

اشوک گویل اشوک کی غزل

    کوئی منزل تو راستہ ہی نہیں

    کوئی منزل تو راستہ ہی نہیں ان سے اب کوئی سلسلہ ہی نہیں مدتوں سے گزر ہے خود سے ہی تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں خواب رنگیں ہیں اس کی آنکھوں میں میرے غم سے وہ آشنا ہی نہیں مجھ کو منظور ہے یہ در بدری تو مرے ساتھ جب چلا ہی نہیں تیرے جانے کے بعد سے میں نے نام اپنا کبھی سنا ہی نہیں

    مزید پڑھیے

    ساتھ رہ کر بھی جانتا کہاں ہے

    ساتھ رہ کر بھی جانتا کہاں ہے وہ مرا ہے پر آشنا کہاں ہے یہ تمنا ہے دو گھڑی جی لوں زیست کا لیکن راستہ کہاں ہے مجھ میں جیتا ہے ہر نفس لیکن میں اسی کا ہوں مانتا کہاں ہے جو دعا میں عبادتوں میں رہا وہ محبت کا دیوتا کہاں ہے چوٹ گہری لگی ہے دل پہ کوئی کسی سے اس کا واسطہ کہاں ہے ساتھ خود ...

    مزید پڑھیے

    زندگی بھی عجب تماشا ہے

    زندگی بھی عجب تماشا ہے دھوپ کو چھاؤں کا سہارا ہے مٹ رہے نقش اس مقدر کے میں نے صحرا سے جو بنایا ہے ہم نوا ہے نہ ہم سفر کوئی حد تلک درد بے سہارا ہے اپنی تنہائیوں سے تھک کر آج تیرگی نے مجھے پکارا ہے میرے اشعار میں چمکتا ہوں میں جب انہیں خون دل پلایا ہے

    مزید پڑھیے

    عشق ہے تو یوں نبھانا چاہیے

    عشق ہے تو یوں نبھانا چاہیے جان پر اب جان جانا چاہیے بات کچھ ایسی بنانا چاہیے بوند میں ساگر سمانا چاہیے موت بھی گر دیکھ لے تو جل مرے زندگی یوں مسکرانا چاہیے مدتوں کوئی سفر ممکن نہیں زندگی کو بھی ٹھکانہ چاہیے زندگی کیا ہے تجربے کے سوا مشکلوں کو آزمانا چاہیے گھر بنا بنیاد کے ...

    مزید پڑھیے

    بجھتی آنکھوں کی روشنی تو دیکھ

    بجھتی آنکھوں کی روشنی تو دیکھ چشم میں تیرتی نمی تو دیکھ آ کبھی تو قریب آ میرے زیست و جاں میں تری کمی تو دیکھ رات بھر جاگتی ہے کیوں یہ شب جاگتی شب کی بیکلی تو دیکھ عمر بھر پانیوں نے لکھی پیاس پانیوں کی یہ تشنگی تو دیکھ ساتھ رہ کر بھی دور دور ہے تو زندگی کی یہ دل لگی تو دیکھ میں ...

    مزید پڑھیے

    کیسی یہ افسردگی ہے آج کل

    کیسی یہ افسردگی ہے آج کل زندگی میں کچھ کمی ہے آج کل چاند کی آوارگی سے چاندنی سوگ میں ڈوبی ہوئی ہے آج کل چل بنائیں آشیاں اس پار ہم رات مجھ سے کہہ رہی ہے آج کل کیا سبب ہے دھوپ ہے سہمی ہوئی پتھروں پر بھی نمی ہے آج کل تڑپنوں میں ہیں غضب بے چینیاں دیتا اس حد تشنگی ہے آج کل جی رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی انتہا نے لوٹ لیا

    عشق کی انتہا نے لوٹ لیا کبھی حسن وفا نے لوٹ لیا کل تلک رہزنوں نے لوٹا ہمیں آج اک آشنا نے لوٹ لیا جو بدل دے مقدروں کا لکھا وقت کی اس ادا نے لوٹ لیا کبھی لوٹا جمال نے تیرے کبھی تیری وفا نے لوٹ لیا بچ گیا وقت کی عداوت سے تو مجھے نا خدا نے لوٹ لیا

    مزید پڑھیے

    موت سے کب نجات ہے پیارے

    موت سے کب نجات ہے پیارے زندگی کو یہ مات ہے پیارے جس نے سمجھا وہ میر ہو گیا ہے آئنہ کائنات ہے پیارے روز چہرے بدل کے خوش ہے تو یہ تو خود سے ہی گھات ہے پیارے تو جنہیں شورویر سمجھے ہے بزدلوں کی یہ ذات ہے پیارے اتنا آساں نہیں غزل کہنا میرؔ غالبؔ کی ذات ہے پیارے تیرا کردار آئنہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    درد کیسا بھی ہو کیا ہوتا ہے

    درد کیسا بھی ہو کیا ہوتا ہے دل تو یہ مر کے بھی اب زندہ ہے ہے اگر دھوپ تو اب دھوپ سہی سر پہ میرے کوئی تو سایہ ہے کس نے پھر قتل کیا سورج کو ہے فضا نم تو یہ دن کالا ہے خود سے ملنے کو بھی تو وقت نہیں کون آئینوں سے اب ملتا ہے نوچ لی اس نے پھر آنکھیں اپنی زیست پر اس نے لکھا صحرا ہے

    مزید پڑھیے