کیسی یہ افسردگی ہے آج کل

کیسی یہ افسردگی ہے آج کل
زندگی میں کچھ کمی ہے آج کل


چاند کی آوارگی سے چاندنی
سوگ میں ڈوبی ہوئی ہے آج کل


چل بنائیں آشیاں اس پار ہم
رات مجھ سے کہہ رہی ہے آج کل


کیا سبب ہے دھوپ ہے سہمی ہوئی
پتھروں پر بھی نمی ہے آج کل


تڑپنوں میں ہیں غضب بے چینیاں
دیتا اس حد تشنگی ہے آج کل


جی رہا ہوں موت کی خواہش لئے
زیست میری دیدنی ہے آج کل


وہ شرافت جو کبھی انمول تھی
کوڑیوں میں بک رہی ہے آج کل


ظلمتوں کا دور بھی یہ کب تلک
روشنی بھی مر رہی ہے آج کل


زیست کی مجبوریاں مت پوچھئے
ساتھ میرے چل رہی ہے آج کل


آ رہی ہے پھر چناؤ کی خبر
شہر بھر میں خامشی ہے آج کل


کون اب واقف ہے اپنے آپ سے
آدمی کب آدمی ہے آج کل