بجھتی آنکھوں کی روشنی تو دیکھ

بجھتی آنکھوں کی روشنی تو دیکھ
چشم میں تیرتی نمی تو دیکھ


آ کبھی تو قریب آ میرے
زیست و جاں میں تری کمی تو دیکھ


رات بھر جاگتی ہے کیوں یہ شب
جاگتی شب کی بیکلی تو دیکھ


عمر بھر پانیوں نے لکھی پیاس
پانیوں کی یہ تشنگی تو دیکھ


ساتھ رہ کر بھی دور دور ہے تو
زندگی کی یہ دل لگی تو دیکھ


میں جو اب روز روز دیکھتا ہوں
وہ تماشا تو دو گھڑی تو دیکھ


ہجر کے زلزلے ہیں اترے ہوئے
خودکشی کرتی وہ ندی تو دیکھ