زندگی بھی عجب تماشا ہے

زندگی بھی عجب تماشا ہے
دھوپ کو چھاؤں کا سہارا ہے


مٹ رہے نقش اس مقدر کے
میں نے صحرا سے جو بنایا ہے


ہم نوا ہے نہ ہم سفر کوئی
حد تلک درد بے سہارا ہے


اپنی تنہائیوں سے تھک کر آج
تیرگی نے مجھے پکارا ہے


میرے اشعار میں چمکتا ہوں میں
جب انہیں خون دل پلایا ہے