ساتھ رہ کر بھی جانتا کہاں ہے

ساتھ رہ کر بھی جانتا کہاں ہے
وہ مرا ہے پر آشنا کہاں ہے


یہ تمنا ہے دو گھڑی جی لوں
زیست کا لیکن راستہ کہاں ہے


مجھ میں جیتا ہے ہر نفس لیکن
میں اسی کا ہوں مانتا کہاں ہے


جو دعا میں عبادتوں میں رہا
وہ محبت کا دیوتا کہاں ہے


چوٹ گہری لگی ہے دل پہ کوئی
کسی سے اس کا واسطہ کہاں ہے


ساتھ خود کے ہوں اجنبی کی طرح
میرا مجھ سے ہی سلسلہ کہاں ہے