اشفاق انجم کی غزل

    کیا خبر تھی یہ دن بھی دیکھیں گے

    کیا خبر تھی یہ دن بھی دیکھیں گے خون بوئیں گے صبر کاٹیں گے کس کو منصف کہیں کسے قاتل بچ رہے کل تلک تو سوچیں گے میں اگر یوں ہی سر اٹھاتا رہا لوگ اپنے ہی بت کو پوجیں گے آپ اپنا بھی جائزہ لے لیں ہم تو اپنی سزا کو پہنچیں گے قوم مذہب زمین رنگ زباں یوں ہی کب تک لکیریں کھینچیں گے کیا ...

    مزید پڑھیے

    زرد موسم کے اک شجر جیسی

    زرد موسم کے اک شجر جیسی ساری بستی ہے میرے گھر جیسی جب بگڑتا ہے وقت انساں کا چھپکلی لگتی ہے مگر جیسی سانس جیسے سفر میں ہے راہی اپنی کایا ہے رہ گزر جیسی چھوٹ جاتا ہے رنگ چھونے سے خواہشیں تتلیوں کے پر جیسی اور کیا ہم غریب رکھتے ہیں ایک دولت ہے بس ہنر جیسی زندگی آج کے زمانے ...

    مزید پڑھیے

    خشک مٹی میں لہو کی جو نمی آئے گی

    خشک مٹی میں لہو کی جو نمی آئے گی دیکھنا باغ میں پھر سبز پری آئے گی کٹ گئی عمر اسی دھن میں سفر کرتے ہوئے دو قدم اور ابھی چھاؤں گھنی آئے گی سچے الفاظ برتنے لگے اشعار میں ہم اپنے حصے میں بھی ہیرے کی کنی آئے گی دم بدم خوں کی روانی میں بھنور پڑتے ہیں ایسا لگتا ہے کوئی سخت گھڑی آئے ...

    مزید پڑھیے

    شہر میرا حجرۂ آفات ہے

    شہر میرا حجرۂ آفات ہے سر پہ سورج اور گھر میں رات ہے سرخ تھے چہرے بدن شاداب تھے یہ ابھی دو چار دن کی بات ہے پھوٹنے ہی والا ہے چشمہ یہاں ساری دنیا عرصۂ عرفات ہے وہ تو ہے بے چین ملنے کے لئے درمیاں خود میری اپنی ذات ہے میں ہوں انجمؔ آفات نیم شب مجھ سے برگشتہ اندھیری رات ہے

    مزید پڑھیے

    زرد پتوں پہ مرا نام لکھا ہے اس نے

    زرد پتوں پہ مرا نام لکھا ہے اس نے سبز خوابوں کا یہ انجام لکھا ہے اس نے کوئی ملتا نہیں جو پڑھ کے سنا دے مجھ کو برگ گل پر کوئی پیغام لکھا ہے اس نے سچ ہے تنہائی میں انسان سنک جاتا ہے روز روشن کو سیہ فام لکھا ہے اس نے مہر و مہ دیپ ہوا ابر سمندر خوشبو کس کی تقدیر میں آرام لکھا ہے اس ...

    مزید پڑھیے

    اٹھاؤ سنگ کہ ہم میں سنک بہت ہے ابھی

    اٹھاؤ سنگ کہ ہم میں سنک بہت ہے ابھی ہمارے گرم لہو میں نمک بہت ہے ابھی اتر رہی ہے اگر چاندنی اترنے دے مہکتی زلف میں تیری چمک بہت ہے ابھی یہ کل کسی نئے موسم کی فصل کاٹیں گے سروں میں اہل جنوں کے ٹھنک بہت ہے ابھی اسے خبر نہیں سورج بھی ڈوب جاتا ہے حسیں لباس پہ نازاں دھنک بہت ہے ...

    مزید پڑھیے

    دے کے چبھتے ہوئے سوال ہوا

    دے کے چبھتے ہوئے سوال ہوا لے گئی میرے تیس سال ہوا پاؤں دھرتی سے اٹھ رہے ہیں مرے ہو سکے تو مجھے سنبھال ہوا اور پھونکے گا بستیاں کتنی آگ سے تیرا اتصال ہوا تو کہ جلتے دیے بجھاتی ہے میرے زخموں کا اندمال ہوا وہ تو کہئے کہ تیرا جسم نہیں تو بھی ہو جاتی پائمال ہوا لوح مرقد پہ آب زر سے ...

    مزید پڑھیے

    اب زرد لبادے بھی نہیں خشک شجر پر

    اب زرد لبادے بھی نہیں خشک شجر پر جس سمت نظر اٹھتی ہے بے رنگ ہے منظر اترے ہیں مری آنکھوں میں جلوؤں کے صحیفے خوابوں کا فرشتہ ہوں میں غزلوں کا پیمبر بیتے ہوئے لمحوں سے ملاقات اگر ہو لے آنا ہواؤ ذرا اک بار مرے گھر اتراؤ نہ مستی میں جواں سال پرندو پروائی کے جھونکوں سے بھی کٹ جاتے ...

    مزید پڑھیے

    تیشہ بدست آ مرے آذر تراش دے

    تیشہ بدست آ مرے آذر تراش دے بے ڈول ہے بہت مرا پیکر تراش دے گر قمریوں کے نغمے گراں بار ہیں تجھے اس رت میں سارے سرو صنوبر تراش دے یوں اڑ گئی ہے بوئے وفا اس کی ذات سے جس طرح کوئی شاخ گل تر تراش دے اڑنا اگر ہے باد مخالف کا دھیان رکھ ایسا نہ ہو کہ تیز ہوا پر تراش دے کیا موم کے بدن کی ...

    مزید پڑھیے

    حیران ہوں نصیب کی بخشش کو دیکھ کر

    حیران ہوں نصیب کی بخشش کو دیکھ کر سائے سے اپنے دھوپ میں محروم ہیں شجر قبضے میں اپنے ہوتی فضاؤں کی مملکت اڑتے اگر ہواؤں کی رفتار دیکھ کر ان سے ملے تو خود سے بھی پہچان ہو گئی ورنہ ہم اپنی ذات سے اب تک تھے بے خبر ہر ٹکڑے میں بس ایک ہی تصویر پاؤ گے دیکھو تو اپنی ذات کا آئینہ توڑ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2