دے کے چبھتے ہوئے سوال ہوا
دے کے چبھتے ہوئے سوال ہوا
لے گئی میرے تیس سال ہوا
پاؤں دھرتی سے اٹھ رہے ہیں مرے
ہو سکے تو مجھے سنبھال ہوا
اور پھونکے گا بستیاں کتنی
آگ سے تیرا اتصال ہوا
تو کہ جلتے دیے بجھاتی ہے
میرے زخموں کا اندمال ہوا
وہ تو کہئے کہ تیرا جسم نہیں
تو بھی ہو جاتی پائمال ہوا
لوح مرقد پہ آب زر سے لکھو
ہو گئی ہے یہاں نڈھال ہوا
ہر قدم دیکھ بھال کر انجمؔ
بن رہی ہے انوکھے جال ہوا