تیشہ بدست آ مرے آذر تراش دے
تیشہ بدست آ مرے آذر تراش دے
بے ڈول ہے بہت مرا پیکر تراش دے
گر قمریوں کے نغمے گراں بار ہیں تجھے
اس رت میں سارے سرو صنوبر تراش دے
یوں اڑ گئی ہے بوئے وفا اس کی ذات سے
جس طرح کوئی شاخ گل تر تراش دے
اڑنا اگر ہے باد مخالف کا دھیان رکھ
ایسا نہ ہو کہ تیز ہوا پر تراش دے
کیا موم کے بدن کی حقیقت ترے لئے
تو چاہے تو نگاہوں سے پتھر تراش دے