اشفاق انجم کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    کیا خبر تھی یہ دن بھی دیکھیں گے

    کیا خبر تھی یہ دن بھی دیکھیں گے خون بوئیں گے صبر کاٹیں گے کس کو منصف کہیں کسے قاتل بچ رہے کل تلک تو سوچیں گے میں اگر یوں ہی سر اٹھاتا رہا لوگ اپنے ہی بت کو پوجیں گے آپ اپنا بھی جائزہ لے لیں ہم تو اپنی سزا کو پہنچیں گے قوم مذہب زمین رنگ زباں یوں ہی کب تک لکیریں کھینچیں گے کیا ...

    مزید پڑھیے

    زرد موسم کے اک شجر جیسی

    زرد موسم کے اک شجر جیسی ساری بستی ہے میرے گھر جیسی جب بگڑتا ہے وقت انساں کا چھپکلی لگتی ہے مگر جیسی سانس جیسے سفر میں ہے راہی اپنی کایا ہے رہ گزر جیسی چھوٹ جاتا ہے رنگ چھونے سے خواہشیں تتلیوں کے پر جیسی اور کیا ہم غریب رکھتے ہیں ایک دولت ہے بس ہنر جیسی زندگی آج کے زمانے ...

    مزید پڑھیے

    خشک مٹی میں لہو کی جو نمی آئے گی

    خشک مٹی میں لہو کی جو نمی آئے گی دیکھنا باغ میں پھر سبز پری آئے گی کٹ گئی عمر اسی دھن میں سفر کرتے ہوئے دو قدم اور ابھی چھاؤں گھنی آئے گی سچے الفاظ برتنے لگے اشعار میں ہم اپنے حصے میں بھی ہیرے کی کنی آئے گی دم بدم خوں کی روانی میں بھنور پڑتے ہیں ایسا لگتا ہے کوئی سخت گھڑی آئے ...

    مزید پڑھیے

    شہر میرا حجرۂ آفات ہے

    شہر میرا حجرۂ آفات ہے سر پہ سورج اور گھر میں رات ہے سرخ تھے چہرے بدن شاداب تھے یہ ابھی دو چار دن کی بات ہے پھوٹنے ہی والا ہے چشمہ یہاں ساری دنیا عرصۂ عرفات ہے وہ تو ہے بے چین ملنے کے لئے درمیاں خود میری اپنی ذات ہے میں ہوں انجمؔ آفات نیم شب مجھ سے برگشتہ اندھیری رات ہے

    مزید پڑھیے

    زرد پتوں پہ مرا نام لکھا ہے اس نے

    زرد پتوں پہ مرا نام لکھا ہے اس نے سبز خوابوں کا یہ انجام لکھا ہے اس نے کوئی ملتا نہیں جو پڑھ کے سنا دے مجھ کو برگ گل پر کوئی پیغام لکھا ہے اس نے سچ ہے تنہائی میں انسان سنک جاتا ہے روز روشن کو سیہ فام لکھا ہے اس نے مہر و مہ دیپ ہوا ابر سمندر خوشبو کس کی تقدیر میں آرام لکھا ہے اس ...

    مزید پڑھیے

تمام