اب زرد لبادے بھی نہیں خشک شجر پر

اب زرد لبادے بھی نہیں خشک شجر پر
جس سمت نظر اٹھتی ہے بے رنگ ہے منظر


اترے ہیں مری آنکھوں میں جلوؤں کے صحیفے
خوابوں کا فرشتہ ہوں میں غزلوں کا پیمبر


بیتے ہوئے لمحوں سے ملاقات اگر ہو
لے آنا ہواؤ ذرا اک بار مرے گھر


اتراؤ نہ مستی میں جواں سال پرندو
پروائی کے جھونکوں سے بھی کٹ جاتے ہیں شہ پر


آ جاتے ہیں جب بھی تری خوشبو کے بلاوے
پیچیدہ سوالات کیا کرتا ہے بستر