اشفاق انجم کی غزل

    میں سوچتا تو ہوں لیکن یہ بات کس سے کہوں

    میں سوچتا تو ہوں لیکن یہ بات کس سے کہوں وہ آئنہ میں جو اترے تو میں سنور جاؤں خود اپنے آپ سے وحشت سی ہو رہی ہے مجھے بچھڑ کے تجھ سے میں اک مستقل عذاب میں ہوں ہر ایک لمحہ بھنور ہے ہر ایک پل طوفاں کہاں تک اور میں ساحل کی جستجو میں بڑھوں مرے وجود نے کیا کیا لباس بدلے ہیں کہیں چراغ ...

    مزید پڑھیے

    میں چپ ہوں اور دنیا سن رہی ہے

    میں چپ ہوں اور دنیا سن رہی ہے خموشی داستانیں بن رہی ہے تعجب ہے کہ اک سونے کی چڑیا بیابانوں میں تنکے چن رہی ہے کہاں نیکی گناہوں سے ہی بچ لیں ہمیں تو بس یہی اک دھن رہی ہے تجھے محسوس کرتے بھی تو کیسے چھٹی حس بھی ہماری سن رہی ہے میں اس بستی کا باشندہ تھا یا رب جہاں سچائی بھی اوگن ...

    مزید پڑھیے

    نہ ہوتا دہر سے جو بے نیاز کیا کرتا

    نہ ہوتا دہر سے جو بے نیاز کیا کرتا کھلا تھا مجھ پہ کچھ ایسا ہی راز کیا کرتا مریض کشمکش جبر و اختیار میں تھا علاج جذب و کشش چارہ ساز کیا کرتا ترے کرم نے تو دنیا ہی سونپ دی تھی مجھے بچا کے کچھ نہ رکھا حرص و آز کیا کرتا بگڑ گیا مرا حلیہ تو برہمی کیسی تھے رہ گزر میں نشیب و فراز کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2