خشک مٹی میں لہو کی جو نمی آئے گی

خشک مٹی میں لہو کی جو نمی آئے گی
دیکھنا باغ میں پھر سبز پری آئے گی


کٹ گئی عمر اسی دھن میں سفر کرتے ہوئے
دو قدم اور ابھی چھاؤں گھنی آئے گی


سچے الفاظ برتنے لگے اشعار میں ہم
اپنے حصے میں بھی ہیرے کی کنی آئے گی


دم بدم خوں کی روانی میں بھنور پڑتے ہیں
ایسا لگتا ہے کوئی سخت گھڑی آئے گی


دیکھ کر سختیٔ حالات گماں ہے انجمؔ
اپنے بعد آئے گی جو نسل جری آئے گی