زرد موسم کے اک شجر جیسی

زرد موسم کے اک شجر جیسی
ساری بستی ہے میرے گھر جیسی


جب بگڑتا ہے وقت انساں کا
چھپکلی لگتی ہے مگر جیسی


سانس جیسے سفر میں ہے راہی
اپنی کایا ہے رہ گزر جیسی


چھوٹ جاتا ہے رنگ چھونے سے
خواہشیں تتلیوں کے پر جیسی


اور کیا ہم غریب رکھتے ہیں
ایک دولت ہے بس ہنر جیسی


زندگی آج کے زمانے میں
بحر ظلمات کے سفر جیسی


ہے ضمیر اور جسم میں انجمؔ
کشمکش کشتی اور بھنور جیسی