تلاش راہ میں راہی کہاں کہاں نہ گیا

تلاش راہ میں راہی کہاں کہاں نہ گیا
طلب جہاں کی اسے تھی کبھی وہاں نہ گیا


یہاں سے آگے کہیں پھر یہ کارواں نہ گیا
کہ میرے گھر سے تو باہر کبھی دھواں نہ گیا


الجھتی رہ گئیں موجوں سے کشتیاں اپنی
ہوا تھی تیز مگر زور بادباں نہ گیا


اسے اندھیروں کی پہچان کیا ہوئی لوگو
چراغ جس کا ہواؤں کے درمیاں نہ گیا


ہر ایک خطۂ مقتل میں تھے کھلے غنچے
مرے لہو کا کوئی قطرہ رائیگاں نہ گیا