سمندر بھی اگرچہ کم بہت ہے
سمندر بھی اگرچہ کم بہت ہے
مری تشنہ لبی میں دم بہت ہے
بہت دن بعد خط آیا ہے ان کا
مزاج دلبراں برہم بہت ہے
غلط اخبار نے لکھا تھا نفرت
یہاں تو پیار کا موسم بہت ہے
اگر رونا ہے تو رونے کی خاطر
حسین ابن علی کا غم بہت ہے
تمہارے قہقہوں میں جان کتنی
ہمارے آنسوؤں میں دم بہت ہے