Arshad Abbas Zaki

ارشد عباس ذکی

ارشد عباس ذکی کی غزل

    خفا ہیں اس لیے وہ ہم سے فرمائش نہیں کرتے

    خفا ہیں اس لیے وہ ہم سے فرمائش نہیں کرتے سو ہم بھی دھوپ اور سائے کی پیمائش نہیں کرتے زمانہ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھتا ہے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آرائش نہیں کرتے ضرورت آشکارا کرتی ہے نام و نسب سب کا وگرنہ جو حسیں ہوتے ہیں زیبائش نہیں کرتے اتر سکتی نہیں دل آئنے میں روشنی جب تک ہم ...

    مزید پڑھیے

    تو کیا ہوا جو مرے ساتھ آج تو نہیں ہے

    تو کیا ہوا جو مرے ساتھ آج تو نہیں ہے فقط یہی کہ ہے ویرانی ہاؤ ہو نہیں ہے تمہارے ساتھ جو اک روز میری بات نہ ہو تو یوں لگے کہ کسی سے بھی گفتگو نہیں ہے یہ زخم دل کی نمائش نہیں تماشا گرو دراصل بات یہ ہے پیرہن رفو نہیں ہے کسی نے دیکھا نہیں ہم نے جیسے دیکھا اسے غلط کہا ہے کسی نے وہ ...

    مزید پڑھیے

    گزارنے کو تو سب زندگی گزارتے ہیں

    گزارنے کو تو سب زندگی گزارتے ہیں ہم اہل عشق عجب زندگی گزارتے ہیں فریب کھاتے چلے جا رہے ہیں دنیا سے کوئی سلیقہ نہ ڈھب زندگی گزارتے ہیں وہ چند روز جو اچھے دنوں سے ہیں موسوم نہ تب گزاری نہ اب زندگی گزارتے ہیں جنہیں قبول نہیں لمحہ بھر کی ہم سفری ہمارے ساتھ وہ کب زندگی گزارتے ...

    مزید پڑھیے

    غزل کو گردش ایام سے نکالتے ہیں

    غزل کو گردش ایام سے نکالتے ہیں اسے نہ ہونے کے ابہام سے نکالتے ہیں یہ لوگ کیوں تری تکذیب کرتے ہیں جبکہ ہزار کام ترے نام سے نکالتے ہیں یہ شعر ہیں ہمیں خیرات میں نہیں ملتے کبھی دھویں سے کبھی جام سے نکالتے ہیں تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ ہم وصال کی فال کبھی سحر سے کبھی شام سے نکالتے ...

    مزید پڑھیے

    جاتی نہیں ہے اس کی مہک تک لحاف سے

    جاتی نہیں ہے اس کی مہک تک لحاف سے آئی تھی ایک بار پری کوہ قاف سے آنکھوں میں روشنی کا سمندر امڈ پڑا جیسے ہی اس بدن کو نکالا غلاف سے تجھ کو کبھی بھی میری ضرورت نہیں رہی مایوس ہو گیا ہوں میں اس انکشاف سے تجھ سے ہمیں شدید محبت ہے اس لئے کرتے ہیں اتفاق ترے اختلاف سے یہ سوچ کر بھی چھت ...

    مزید پڑھیے

    لگا لیا تھا دل کو ایک سل کے ساتھ

    لگا لیا تھا دل کو ایک سل کے ساتھ سو جی رہا ہوں درد مستقل کے ساتھ سب اپنی اپنی جنتوں میں کھو گئے کسے پڑی نبھاتا مجھ خجل کے ساتھ میں جس طرف تھا جان کی اماں نہ تھی وہ ہو گیا ہجوم مشتعل کے ساتھ اڑان بھر رہا تھا وہ خلاؤں کی ہمارا رابطہ تھا آب و گل کے ساتھ بے اطمینان ہو گیا ترا اسیر یہ ...

    مزید پڑھیے

    بر سر روزگار تھے ہم تو

    بر سر روزگار تھے ہم تو جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو چل دیے دوست تو یہ دھیان آیا صرف اک رہ گزار تھے ہم تو اب غلاموں کے بھی غلام ہوئے صاحب اقتدار تھے ہم تو کھل کے روئے ہیں تو یقین آیا واقعی جان دار تھے ہم تو جب گرے ٹوٹ کر تو یہ دیکھا چار سو بے شمار تھے ہم تو ہمیں ٹھکرا دیا گیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    جب ہمارے خلاف بولتے ہیں

    جب ہمارے خلاف بولتے ہیں سب ہمارے خلاف بولتے ہیں ہم تو تھے مطمئن کہ یہ احباب کب ہمارے خلاف بولتے ہیں بولتے ہیں جب ان کے حق میں ہم تب ہمارے خلاف بولتے ہیں پہلے ہم سے انہیں محبت تھی اب ہمارے خلاف بولتے ہیں دل ہمارے لیے دھڑکتا ہے لب ہمارے خلاف بولتے ہیں

    مزید پڑھیے

    بس ترا اسم مناجات میں رکھا ہوا ہے

    بس ترا اسم مناجات میں رکھا ہوا ہے گردش وقت کو اوقات میں رکھا ہوا ہے یہ ترے عدل و مساوات میں رکھا ہوا ہے تو نے تو اجر بھی درجات میں رکھا ہوا ہے اب مجھے جا کے ہر اک در پہ صدا دینی ہے جب مرا رزق ہی خیرات میں رکھا ہوا ہے اپنی ہر بات پہ ہوتا ہے ولایت کا گماں عشق نے کیسے طلسمات میں رکھا ...

    مزید پڑھیے

    تو ملا تو مجھے یقیں آیا

    تو ملا تو مجھے یقیں آیا میں یہاں بے سبب نہیں آیا مجھ سے تجھ میں کشش زیادہ تھی اس لئے میں ترے قریں آیا جانے دریا کے پار کیا ہے کہ جو مسکراتا گیا حزیں آیا جہاں آنا نہ چاہیے تھا کبھی دل سیہ بخت تھا وہیں آیا قبر ہے یا بلیک ہول کوئی جو گیا لوٹ کر نہیں آیا جھوم اٹھے ہیں سبھی ستارے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2