بس ترا اسم مناجات میں رکھا ہوا ہے
بس ترا اسم مناجات میں رکھا ہوا ہے
گردش وقت کو اوقات میں رکھا ہوا ہے
یہ ترے عدل و مساوات میں رکھا ہوا ہے
تو نے تو اجر بھی درجات میں رکھا ہوا ہے
اب مجھے جا کے ہر اک در پہ صدا دینی ہے
جب مرا رزق ہی خیرات میں رکھا ہوا ہے
اپنی ہر بات پہ ہوتا ہے ولایت کا گماں
عشق نے کیسے طلسمات میں رکھا ہوا ہے
تو نے جو آخری مکتوب مجھے بھیجا تھا
میں نے اک عمر سے برسات میں رکھا ہوا ہے
رونق شہر کبھی راس نہیں آئی ذکیؔ
دل کو بہلا کے مضافات میں رکھا ہوا ہے