غزل کو گردش ایام سے نکالتے ہیں
غزل کو گردش ایام سے نکالتے ہیں
اسے نہ ہونے کے ابہام سے نکالتے ہیں
یہ لوگ کیوں تری تکذیب کرتے ہیں جبکہ
ہزار کام ترے نام سے نکالتے ہیں
یہ شعر ہیں ہمیں خیرات میں نہیں ملتے
کبھی دھویں سے کبھی جام سے نکالتے ہیں
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ ہم وصال کی فال
کبھی سحر سے کبھی شام سے نکالتے ہیں
خدایا دشت سفر ختم کیوں نہیں ہوتا
سراغ راہ تو ہر گام سے نکالتے ہیں
اب انتظار یہی ہے کہ کب ہمارے امام
ہمیں مصیبت و آلام سے نکالتے ہیں
کچھ اور کاموں میں دل کو لگا کے دیکھیں ذکیؔ
اسے طلسم شفق فام سے نکالتے ہیں