لگا لیا تھا دل کو ایک سل کے ساتھ
لگا لیا تھا دل کو ایک سل کے ساتھ
سو جی رہا ہوں درد مستقل کے ساتھ
سب اپنی اپنی جنتوں میں کھو گئے
کسے پڑی نبھاتا مجھ خجل کے ساتھ
میں جس طرف تھا جان کی اماں نہ تھی
وہ ہو گیا ہجوم مشتعل کے ساتھ
اڑان بھر رہا تھا وہ خلاؤں کی
ہمارا رابطہ تھا آب و گل کے ساتھ
بے اطمینان ہو گیا ترا اسیر
یہ کیا کیا ہے تو نے میرے دل کے ساتھ
پھر اس کے ذکر نے رلا دیا ذکیؔ
ہے چھیڑ چھاڑ زخم مندمل کے ساتھ