جاتی نہیں ہے اس کی مہک تک لحاف سے

جاتی نہیں ہے اس کی مہک تک لحاف سے
آئی تھی ایک بار پری کوہ قاف سے


آنکھوں میں روشنی کا سمندر امڈ پڑا
جیسے ہی اس بدن کو نکالا غلاف سے


تجھ کو کبھی بھی میری ضرورت نہیں رہی
مایوس ہو گیا ہوں میں اس انکشاف سے


تجھ سے ہمیں شدید محبت ہے اس لئے
کرتے ہیں اتفاق ترے اختلاف سے


یہ سوچ کر بھی چھت کی مرمت نہ کی ذکیؔ
تازہ ہوا تو آتی رہے گی شگاف سے