Arsh Siddiqui

عرش صدیقی

عرش صدیقی کی غزل

    کیا ساتھ ترا دوں کہ میں اک موج ہوا ہوں

    کیا ساتھ ترا دوں کہ میں اک موج ہوا ہوں بس ایک نفس عرض تمنا کو رکا ہوں رہتا ہوں بگولوں کی طرح رقص میں بے تاب اے ہم نفسو میں دل صحرا سے اٹھا ہوں قطرہ ہوں میں دریا میں مجھے کچھ نہیں معلوم ہمراہ مرے کون ہے میں کس سے جدا ہوں اک لمحہ ٹھہر مجھ کو بھی ہمراہ لیے چل اے لیلیٰ ہستی ترا نقش کف ...

    مزید پڑھیے

    حصار دل سے ادھر بھی حقیقتیں ہیں بہت

    حصار دل سے ادھر بھی حقیقتیں ہیں بہت ترے بغیر بھی جینے کی صورتیں ہیں ہیں ترے غرور کو ہم سے شکایتیں ہیں بجا ہم آدمی ہیں ہمیں پست عادتیں ہیں بہت جو تیری طرز جفا سے ہمارا حال ہوا زباں پہ لائیں یہ اس میں قباحتیں ہیں بہت اگر ہے باعث وحشت تجھے ہمارا جنوں ہمیں بھی تیری ادا سے شکایتیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم گھر ہی میں رہتے تو تماشا تو نہ ہوتے

    ہم گھر ہی میں رہتے تو تماشا تو نہ ہوتے یوں کشتۂ بیداد زمانہ تو نہ ہوتے غم دل پہ شکست طلب جاں کا ہے بھاری مٹ جاتے تگ و تاز میں پسپا تو نہ ہوتے کھو جاتے کسی بادیۂ ہفت بلا میں خلقت میں مگر راندۂ دنیا تو نہ ہوتے دنیا سے جو رکھتے کبھی دنیا سے روابط اپنے ہی زمانے میں یوں تنہا تو نہ ...

    مزید پڑھیے

    آہ بارگہہ حسن میں جلووں کا اثر دیکھ

    آہ بارگہہ حسن میں جلووں کا اثر دیکھ حد سے نہ گزر ضبط میں اے ضبط نظر دیکھ مت پوچھ کہ کیا گزری دل شعلہ صفت پر اس دست حنائی میں مرا دامن تر دیکھ تو اس کا تمنائی ہے مت ڈر دل ناداں امید نہیں پھر بھی وہ کہتا ہے تو مر دیکھ یہ شہر ہے یا خیمہ ہے دشمن کا سپہ کا آواز کے زخموں سے لہو ہے مرا سر ...

    مزید پڑھیے

    حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے

    حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے تو اہل نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر کیوں پہلو میں ترے کوئی زمانے سے کھڑا ہے لکھا ہے مرا نام سمندر پہ ہوا نے اور دونوں کی فطرت میں سکوں ہے نہ وفا ہے شکوہ نہیں مجھ کو کہ ہوں محروم تمنا غم ہے تو فقط اتنا کہ تو ...

    مزید پڑھیے

    بند آنکھوں سے نہ حسن شب کا اندازہ لگا

    بند آنکھوں سے نہ حسن شب کا اندازہ لگا محمل دل سے نکل سر کو ہوا تازہ لگا دیکھ رہ جائے نہ تو خواہش کے گنبد میں اسیر گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا ہر طرف سے آئے گا تیری صداؤں کا جواب چپ کے چنگل سے ...

    مزید پڑھیے

    عذاب بے دلئ جان مبتلا نہ گیا

    عذاب بے دلئ جان مبتلا نہ گیا جو سر پہ بار تھا اندیشۂ سزا نہ گیا خموش ہم بھی نہیں تھے حضور یار مگر جو کہنا چاہتے تھے بس وہی کہا نہ گیا پلٹ کے دیکھنے کی اب تو آرزو بھی نہیں تھی عاشقی ہمیں جب خوب، وہ زمانہ گیا رہے مصر کہ اٹھا دیں وہ انجمن سے ہمیں ہم اٹھنا چاہتے بھی تھے مگر اٹھا نہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر ہنر مندوں کے گھر سے بے ہنر جاتا ہوں میں

    پھر ہنر مندوں کے گھر سے بے ہنر جاتا ہوں میں تم خبر بے زار ہو اہل نظر جاتا ہوں میں جیب میں رکھ لی ہیں کیوں تم نے زبانیں کاٹ کر کس سے اب یہ اجنبی پوچھے کدھر جاتا ہوں میں ہاں میں سایہ ہوں کسی شے کا مگر یہ بھی تو دیکھ گر تعاقب میں نہ ہو سورج تو مر جاتا ہوں میں ہاتھ آنکھوں سے اٹھا کر ...

    مزید پڑھیے

    حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے

    حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے تو اہل نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر کیوں پہلو میں ترے کوئی زمانے سے کھڑا ہے لکھا ہے مرا نام سمندر پہ ہوا نے اور دونو کی فطرت میں سکوں ہے نہ وفا ہے میں شہر و بیاباں میں تجھے ڈھونڈ چکا ہوں بے درد تو کس حجلۂ ...

    مزید پڑھیے

    ہم کبھی چشم زمانہ میں نہ پنہاں ہوں گے

    ہم کبھی چشم زمانہ میں نہ پنہاں ہوں گے ہم ہر اک دور میں ہر دل میں نمایاں ہوں گے درد بن کر نفس جاں میں سما جائیں گے سوز بن کر حرم دل میں فروزاں ہوں گے ہم خزاں ہو کے بھی ہیں رونق بزم عالم ہم نہ ہوں گے تو کہاں جشن بہاراں ہوں گے ہم جلیں گے کہ ترے نام کی لو روشن ہو ہم بہ ہر رنگ تری زیست ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5