آہ بارگہہ حسن میں جلووں کا اثر دیکھ
آہ بارگہہ حسن میں جلووں کا اثر دیکھ
حد سے نہ گزر ضبط میں اے ضبط نظر دیکھ
مت پوچھ کہ کیا گزری دل شعلہ صفت پر
اس دست حنائی میں مرا دامن تر دیکھ
تو اس کا تمنائی ہے مت ڈر دل ناداں
امید نہیں پھر بھی وہ کہتا ہے تو مر دیکھ
یہ شہر ہے یا خیمہ ہے دشمن کا سپہ کا
آواز کے زخموں سے لہو ہے مرا سر دیکھ
کیوں بحر خموشی میں ہے تو مثل صدا تنگ
حسرت کوئی باقی ہے تو اک بار ابھر دیکھ
شاید ترے حصے میں ہو موتی کا مقدر
اے قطرۂ جاں آج سمندر میں اتر دیکھ
کیوں پاؤں پسارے تو پڑا ہے سر راہے
کیا سخت سفر ہے ذرا سائے سے ادھر دیکھ
شاید ہو ادھر عرشؔ کوئی چشمۂ حیواں
اک بار تو ہستی کے بیاباں سے گزر دیکھ