Arsh Siddiqui

عرش صدیقی

عرش صدیقی کی غزل

    ہم کہ خاموش ہوئے اہل بیاں دیکھتے ہیں

    ہم کہ خاموش ہوئے اہل بیاں دیکھتے ہیں راز انداز تکلم سے عیاں دیکھتے ہیں جان لیوا ہے فریب رہ گلزار طلب نشتر شوق قریب رگ جاں دیکھتے ہیں ہے اسی گھر میں کہیں گوہر امید نہاں سوئے ویرانۂ دل بہر اماں دیکھتے ہیں کیسے بنتا ہے لہو سرخی افسانۂ دل کیسے بنتا ہے قلم نوک سناں دیکھتے ہیں آتش ...

    مزید پڑھیے

    زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی

    زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی جاری ہے ابھی گردش پا سہمی ہوئی سی دل ٹوٹ تو جاتا ہے پہ گریہ نہیں کرتا کیا ڈر ہے کہ رہتی ہے وفا سہمی ہوئی سی اٹھ جائے نظر بھول کے گر جانب افلاک ہونٹوں سے نکلتی ہے دعا سہمی ہوئی سی ہاں ہنس لو رفیقو کبھی دیکھی نہیں تم نے نمناک نگاہوں میں حیا سہمی ...

    مزید پڑھیے

    اٹھا جو دست ستم قتل بے نوا کے لئے

    اٹھا جو دست ستم قتل بے نوا کے لئے نگاہ شوق نے بوسے ہر اک ادا کے لئے مہک ہے تیرے شبستاں کی بوئے زلف صبا چلی ہے باد صبا اک شکستہ پا کے لئے سنو کہ دل کو مرے اعتبار زیست نہیں رکا ہوں ایک نفس عرض مدعا کے لئے مرے خیال نے پہنا لباس حرف و ندا صریر خامہ ہے رقصاں مری نوا کے لئے دیار دل تو ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک ہی کیفیت دل صبح مسا ہے

    بس ایک ہی کیفیت دل صبح مسا ہے ہر لمحہ مری عمر کا زنجیر بہ پا ہے میں شہر کو کہتا ہوں بیاباں کہ یہاں بھی سایہ تری دیوار کا کب سر پہ پڑا ہے ہے وقت کہ کہتا ہے رکوں گا نہ میں اک پل تو ہے کہ ابھی بات مری تول رہا ہے میں بزم سے خاکستر دل لے کے چلا ہوں اور سامنے تنہائی کے صحرا کی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    درد کو ہم زندگی کا کیف و کم کہتے رہے

    درد کو ہم زندگی کا کیف و کم کہتے رہے خامشی کے ساز پر روداد غم کہتے رہے گوش بر آواز پوری بزم میں کوئی نہ تھا داستان آرزو کہنے کو ہم کہتے رہے انتہائے یاس میں چلتے رہے بے مدعا دیکھنے والے ہمیں ثابت قدم کہتے رہے دل فریب زندگی میں بے طرح الجھا رہا عشق کو آزاد پتھر کو صنم کہتے رہے کم ...

    مزید پڑھیے

    تابندہ حسن راز بہاراں ہمیں سے ہے

    تابندہ حسن راز بہاراں ہمیں سے ہے نظم خزاں جو ہے تو ہراساں ہمیں سے ہے اپنے لہو کا رنگ ملا ہے بہار میں لالہ مثال شعلۂ رقصاں ہمیں سے ہے جلتا ہے اپنا خوں ہی سر بزم رات بھر اے حسن بے خبر یہ چراغاں ہمیں سے ہے ہم آج شہر یار کے معتوب ہیں تو کیا ہر دم وہ اپنے شہر میں ترساں ہمیں سے ہے رکھی ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا

    بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا زہر وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا خود اس کے پاس جاؤں نہ اس کو بلاؤں پاس پایا ہے وہ مزاج کہ جینا بلا ہوا اس پر غلط ہے عشق میں الزام دشمنی قاتل ہے میرے حجلۂ‌‌ جاں میں چھپا ہوا ہیں جسم و جاں بہم یہ مگر کس کو ہے خبر کس کس جگہ سے دامن دل ہے سلا ہوا ہے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں کہیں اس کے بھی طوفاں تو نہیں تھا

    آنکھوں میں کہیں اس کے بھی طوفاں تو نہیں تھا وہ مجھ سے جدا ہو کے پشیماں تو نہیں تھا کیوں مجھ سے نہ کی اس نے سر بزم کوئی بات میں سنگ ملامت سے گریزاں تو نہیں تھا ہاں حرف تسلی کے لیے تھا میں پریشاں پہلو میں مرے دل تھا کہستاں تو نہیں تھا کیوں راستہ دیکھا کیا اس کا میں سر شام بے درد کا ...

    مزید پڑھیے

    غم کی گرمی سے دل پگھلتے رہے

    غم کی گرمی سے دل پگھلتے رہے تجربے آنسوؤں میں ڈھلتے رہے ایک لمحے کو تم ملے تھے مگر عمر بھر دل کو ہم مسلتے رہے صبح کے ڈر سے آنکھ لگ نہ سکی رات بھر کروٹیں بدلتے رہے زہر تھا زندگی کے کوزے میں جانتے تھے مگر نگلتے رہے دل رہا سر خوشی سے بیگانہ گرچہ ارماں بہت نکلتے رہے اپنا عزم سفر نہ ...

    مزید پڑھیے

    بندھا ہے عہد جنوں چشم اعتبار کے ساتھ

    بندھا ہے عہد جنوں چشم اعتبار کے ساتھ اسے کہو کہ جئے عزم استوار کے ساتھ نہ ہو سکی کبھی توفیق درگزر کی اسے نہ چل سکے کبھی ہم خود بھی اقتدار کے ساتھ فقیہ شہر سے کہنا کہ دل کشادہ رکھے ملا ہے منصب اعلیٰ جو اختیار کے ساتھ نشان‌ ناقۂ لیلےٰ پہنچ سے دور نہیں کبھی چلو تو سہی دو قدم غبار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5