ہم گھر ہی میں رہتے تو تماشا تو نہ ہوتے
ہم گھر ہی میں رہتے تو تماشا تو نہ ہوتے
یوں کشتۂ بیداد زمانہ تو نہ ہوتے
غم دل پہ شکست طلب جاں کا ہے بھاری
مٹ جاتے تگ و تاز میں پسپا تو نہ ہوتے
کھو جاتے کسی بادیۂ ہفت بلا میں
خلقت میں مگر راندۂ دنیا تو نہ ہوتے
دنیا سے جو رکھتے کبھی دنیا سے روابط
اپنے ہی زمانے میں یوں تنہا تو نہ ہوتے
ہو رہتے حرم کے تو جئے جاتے سکوں سے
بدنام رہ دیر و کلیسا تو نہ ہوتے
آوارہ مزاجی کی سزا خوب تھی لیکن
پا بستۂ خاک لب دریا تو نہ ہوتے
جیتے ہیں تو سب کھل گئے اوصاف جہاں پر
مر جاتے تو اچھا تھا کہ رسوا تو نہ ہوتے
اونچا جو اٹھا رکھتے علم اپنی انا کا
اعلیٰ نہ سہی عرش پہ ادنیٰ تو نہ ہوتے