مانوس ہو گئے ہیں اندھے پرانے گھر سے
مانوس ہو گئے ہیں اندھے پرانے گھر سے باہر نہیں نکلتے ہم روشنی کے ڈر سے سائے کی آرزو میں لپٹے ہوئے ہیں ہم سب سنسان راستے میں آتش زدہ شجر سے ہم خاک ہو کے بھی ہر موج ہوا سے الجھے یعنی تری وفا کا سودا گیا نہ سر سے کیا کیا نہ گل کھلیں گے کیا کیا نہ جشن ہوں گے اس کشت آرزو میں بادل کبھی ...