Arsh Siddiqui

عرش صدیقی

عرش صدیقی کی غزل

    آخر ہم نے طور پرانا چھوڑ دیا

    آخر ہم نے طور پرانا چھوڑ دیا اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا منظر بھی سب بانجھ رتوں میں ڈوب گئے آنکھوں پر بھی پہرہ بٹھانا چھوڑ دیا ختم ہوئی شوریدہ سری لب سل سے گئے محفل محفل ہنسنا ہنسانا چھوڑ دیا نظروں پر کھڑکی کے پٹ دیوار کیے دروازوں میں اس کا سجانا چھوڑ دیا جب سے ہوا احساس ...

    مزید پڑھیے

    وہ جس کی داستاں پھیلی دل دیوانہ میرا تھا

    وہ جس کی داستاں پھیلی دل دیوانہ میرا تھا زبانیں دشمنوں کی تھیں مگر افسانہ میرا تھا تڑپتا ہوں کہ اک ساغر کسی حاتم سے مل جائے زوال آسماں دیکھو کبھی مے خانہ میرا تھا بلا کی خامشی طاری تھی ہر سو تیری ہیبت سے سر محفل جو گونجا نعرۂ مستانہ میرا تھا کٹے یوں تو ہزاروں سر وفا کی کربلاؤں ...

    مزید پڑھیے

    دروازہ ترے شہر کا وا چاہئے مجھ کو

    دروازہ ترے شہر کا وا چاہئے مجھ کو جینا ہے مجھے تازہ ہوا چاہئے مجھ کو آزار بھی تھے سب سے زیادہ مری جاں پر الطاف بھی اوروں سے سوا چاہئے مجھ کو وہ گرم ہوائیں ہیں کہ کھلتی نہیں آنکھیں صحرا میں ہوں بادل کی ردا چاہئے مجھ کو لب سی کے مرے تو نے دیے فیصلے سارے اک بار تو بے درد سنا چاہئے ...

    مزید پڑھیے

    دل کہ آرائش عالم کا تماشا دیکھے

    دل کہ آرائش عالم کا تماشا دیکھے گر کبھی خود پہ نظر جائے تو صحرا دیکھے آنکھ وہ آنکھ جو ہر قطرے میں دریا دیکھے تو مگر سامنے آ جائے تو پھر کیا دیکھے خواب میں ہو تو یہ دل دیکھے تری دید کے خواب خواب سے جاگے تو اک خواب سی دنیا دیکھے جو سمجھتا ہے کہ کھل جاتا ہے فریاد سے بخت سوئے افلاک ...

    مزید پڑھیے

    روشنی بن کے ستاروں میں رواں رہتے ہیں

    روشنی بن کے ستاروں میں رواں رہتے ہیں جسم افلاک میں ہم صورت جاں رہتے ہیں ہیں دل دہر میں ہم صورت امید نہاں مثل ایماں رخ ہستی پہ عیاں رہتے ہیں جو نہ ڈھونڈو تو ہمارا کوئی مسکن ہی نہیں اور دیکھو تو قریب رگ جاں رہتے ہیں ہر نفس کرتے ہیں اک طرفہ تماشا پیدا ہم سر دار بھی تزئیں جہاں رہتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5