جوش جنوں بھی گردش دوراں سے کم نہ تھا

جوش جنوں بھی گردش دوراں سے کم نہ تھا
دل تھا تو دشت غم بھی گلستاں سے کم نہ تھا


رنگینیٔ جمال کی سرحد نہ تھی کوئی
اور حوصلہ بھی حیطۂ امکاں سے کم نہ تھا


کیا کیا بسی تھیں صورتیں دامان خواب میں
دشت خیال شہر نگاراں سے کم نہ تھا


ہر آرزو کو اپنی نہایت کی فکر تھی
بازار شوق حشر کے میداں سے کم نہ تھا


سچ ہے جنوں کی راہ میں ایماں گیا مگر
پاس مزاج یار بھی ایماں سے کم نہ تھا


آوارگی کو وسعت صحرا بھی کم رہی
دل کو جہان شوق بھی زنداں سے کم نہ تھا


ہم کو نہ تھی جنوں میں تمیز دماغ و دل
دامن کا چاک چاک گریباں سے کم نہ تھا


اپنے لئے تھا باعث آبادئ نظر
بے ساختہ گریز جو پیماں سے کم نہ تھا


دیکھا نہ ہم نے یاں بھی شجر کوئی سایہ دار
یعنی دیار عشق بیاباں سے کم نہ تھا


مجرم نہیں تھے پھر بھی ستائے گئے ہمیں
قاضی بزعم خویش سلیماں سے کم نہ تھا


راہوں میں زندگی کی لٹی سب متاع ہوش
الجھاؤ ان کا زلف پریشاں سے کم نہ تھا


دل پر رقم تھی ایک سے اک طرفہ داستاں
کوئی بھی زخم عرشؔ دبستاں سے کم نہ تھا