آنکھوں میں کہیں اس کی بھی طوفاں تو نہیں تھا

آنکھوں میں کہیں اس کی بھی طوفاں تو نہیں تھا
وہ مجھ سے جدا ہو کے پشیماں تو نہیں تھا


کیوں اس نے نہ کی مجھ سے سر بزم کوئی بات
میں سنگ ملامت سے گریزاں تو نہیں تھا


کیوں راستہ دیکھا کیا اس کا میں سر شام
بے درد کا مجھ سے کوئی پیماں تو نہیں تھا


تھی آگ بھی تیری ہی طرح ہوش کی دشمن
ورنہ مجھے جل مرنے کا ارماں تو نہیں تھا


تھا دل بھی کبھی شہر تمنا میں مماثل
یہ قریہ ہمیشہ سے بیاباں تو نہیں تھا


کیوں اس نے مجھے عظمت قرآں کی قسم دی
وہ رہزن ایمان مسلماں تو نہیں تھا


کیوں مجھ سے توقع تھی اسے جاہ و حشم کی
میں بندۂ نادار سلیماں تو نہیں تھا


طوفان الم کیوں مجھے ساحل پہ اتارا
میں شور تلاطم سے ہراساں تو نہیں تھا


شب بھر مری پلکوں میں دمکتے رہے تارے
کل رات یہاں جشن چراغاں تو نہیں تھا


کہتے ہیں کہ ہے عرشؔ نگوں پائے نبی پر
ایسا وہ کوئی صاحب ایماں تو نہیں تھا