منزل مرگ میں جینے کی ادا رکھتا ہوں
منزل مرگ میں جینے کی ادا رکھتا ہوں
یعنی ہر حال میں انداز جدا رکھتا ہوں
جز ہوا کوئی نہیں مونس و غم خوار مگر
رات بھر کمرے کا دروازہ کھلا رکھتا ہوں
اپنی فطرت کو سکھاتا ہوں غلامی تیری
موج آزاد کو زنجیر بہ پا رکھتا ہوں
گم ہوں قطرے کی طرح وقت کے دریا میں مگر
اپنی ہستی کا طلسمات جدا رکھتا ہوں
زیر پا ہیں مرے صحراؤں کے جلتے میداں
سر پہ آلام کے شعلوں کی ردا رکھتا ہوں
بحر آزار بھی ہے حد نظر تک رقصاں
جذبۂ شوق اگر حد سے سوا رکھتا ہوں
میری فریاد پہ کب باب عنایات کھلا
ہائے کس منہ سے کہوں میں بھی خدا رکھتا ہوں
غم نہ کر تو ہے اگر خوئے خرابی کا اسیر
میں بھی آلام سے پیمان وفا رکھتا ہوں
کیوں نہیں عکس ابد میں بھی سمندر جیسا
نقش بر آب ہوں خالق سے گلا رکھتا ہوں
عرشؔ میں خود ہوں سدا اپنے سکوں کا دشمن
دشت امید بھی بر دوش ہوا رکھتا ہوں