aqeel nomani

عقیل نعمانی

معاصر شاعر، مشاعروں میں مقبول

Contemporary poet, popular in mushairas.

عقیل نعمانی کی غزل

    اک تمنا میں گرفتار تھے ہم بھی تم بھی

    اک تمنا میں گرفتار تھے ہم بھی تم بھی ساری دنیا کے گنہ گار تھے ہم بھی تم بھی دل کشی دیکھ کے چڑھتے ہوئے دریاؤں کی ڈوبنے کے لیے تیار تھے ہم بھی تم بھی بے سبب دونوں میں ہر ایک کو دلچسپی تھی اور ہر ایک سے بیزار تھے ہم بھی تم بھی کامیاب ایسے کہاں اپنے مخالف ہوتے مستقل ان کے مددگار تھے ...

    مزید پڑھیے

    بے خودی میں منہ سے جو نکلا سخن ثابت ہوا

    بے خودی میں منہ سے جو نکلا سخن ثابت ہوا عقل سے بہتر مرا دیوانہ پن ثابت ہوا مورد الزام ٹھہرایا گیا ہم کو مگر وجہ رسوائی نظام انجمن ثابت ہوا غیر چہرے اجنبی ماحول مبہم سے نقوش میں جہاں پہنچا وہی میرا وطن ثابت ہوا ایک لمحے کو بہاروں سے ہوئے تھے ہم کلام ایک مدت میں ہمارا پیرہن ثابت ...

    مزید پڑھیے

    اس کا پیچھا نہ کیا ہم نے صداؤں کی طرح

    اس کا پیچھا نہ کیا ہم نے صداؤں کی طرح آ گئے لوٹ کے ناکام دعاؤں کی طرح تیرے دامن سے لپٹتا ہوں تو ملتا ہے سکوں میں ہوں اے دوست پریشان ہواؤں کی طرح دل کئی سال سے مرگھٹ کی طرح سونا ہے ہم کئی سال سے روشن ہیں چتاؤں کی طرح دشت اخلاص میں ملتا ہے بہر حال سکوں غم بھی سینے سے لگا لیتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    برائے نام کوئی رابطہ ہوا تو سہی

    برائے نام کوئی رابطہ ہوا تو سہی کہ ایک شخص مرے حال پر ہنسا تو سہی ذرا سی دیر کو صدیوں کی خامشی تو گئی نواح جاں سے کوئی شور سا اٹھا تو سہی دل شکستہ کو موہوم سی امید تو تھی مجھے نصیب نہیں تھا مگر وہ تھا تو سہی کبھی تمام تو کر بد گمانیوں کا سفر کسی بہانے کسی روز آزما تو سہی یہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    اک نگاہ اس جانب تھوڑی دور پانی پر

    اک نگاہ اس جانب تھوڑی دور پانی پر تیرتے ہیں کچھ لاشے پھر حضور پانی پر کشتیاں فنا کر کے جا چھپے کہیں طوفاں جان پھینکے جاتے ہیں بے قصور پانی پر مجھ کو تشنہ کامی نے فتح یابیاں بخشیں اور میرے دشمن کو تھا غرور پانی پر انگنت سفینوں میں دیپ جگمگاتے ہیں رات نے لٹایا ہے رنگ و نور پانی ...

    مزید پڑھیے

    تمنائیں جواں تھیں عشق فرمانے سے پہلے

    تمنائیں جواں تھیں عشق فرمانے سے پہلے شگفتہ تھے یہ سارے پھول کمہلانے سے پہلے حفاظت کی کوئی صورت نکل آتی ہے اکثر میں تم کو ڈھونڈ ہی لیتا ہوں کھو جانے سے پہلے بھلا وہ لوگ کیا جانیں سفر کی لذتوں کو جنہیں منزل ملی ہو ٹھوکریں کھانے سے پہلے مری وحشت مرے صحرا میں ان کو ڈھونڈھتی ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    نہ سب بے خبر ہیں نہ ہشیار سب

    نہ سب بے خبر ہیں نہ ہشیار سب غرض کے مطابق ہیں کردار سب دکھاوے کی ہیں ساری دلچسپیاں حقیقت میں سب سے ہیں بیزار سب خبر ہے کوئی چارہ گر آئے گا سلیقے سے بیٹھے ہیں بیمار سب بڑی دھوم ہے اس کے انصاف کی بڑے مطمئن ہیں گنہ گار سب سبھی زندگی کے نشانے پہ ہیں ٹھکانے نہ لگ جائیں اس بار ...

    مزید پڑھیے

    اس کو میرے افسانے میں کیا جانے کیا بات ملی

    اس کو میرے افسانے میں کیا جانے کیا بات ملی چاند سے رخ پر غم کے بادل آنکھوں میں برسات ملی بس اتنی سی بات تھی اس کی زلف ذرا لہرائی تھی خوف زدہ ہر شام کا منظر سہمی سی ہر رات ملی دولت اور شہرت لوگوں نے قسمت سے آگے پائی اور مصیبت بھی ہم کو تو بس حسب اوقات ملی وہ جس کو کچھ فکر نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    وہ جانتا ہے اس کی دلیلوں میں دم نہیں

    وہ جانتا ہے اس کی دلیلوں میں دم نہیں پھر بھی مباحثوں کا اسے شوق کم نہیں پوچھو ذرا یہ کون سی دنیا سے آئے ہیں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں ہمیں کوئی غم نہیں کس کس کے احترام میں سر کو جھکاؤں میں میرے علاوہ کون یہاں محترم نہیں ملتا ہے جن سے راہ نوردوں کو حوصلہ میرے لئے وہ لوگ بھی منزل سے کم ...

    مزید پڑھیے

    جن دنوں ہم اداس لگتے ہیں

    جن دنوں ہم اداس لگتے ہیں جانے کیا کیا قیاس لگتے ہیں وہ اداکار ہیں خیال رہے جو بہت غم شناس لگتے ہیں بعض اوقات بد حواسی میں سب کے سب بد حواس لگتے ہیں مسکرانے کی کیا ضرورت ہے آپ یوں بھی اداس لگتے ہیں چند خوش فہم خوش لباسوں کو دوسرے بے لباس لگتے ہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2