اک نگاہ اس جانب تھوڑی دور پانی پر
اک نگاہ اس جانب تھوڑی دور پانی پر
تیرتے ہیں کچھ لاشے پھر حضور پانی پر
کشتیاں فنا کر کے جا چھپے کہیں طوفاں
جان پھینکے جاتے ہیں بے قصور پانی پر
مجھ کو تشنہ کامی نے فتح یابیاں بخشیں
اور میرے دشمن کو تھا غرور پانی پر
انگنت سفینوں میں دیپ جگمگاتے ہیں
رات نے لٹایا ہے رنگ و نور پانی پر
جس کو آخر شب کا ہم سفر بتایا ہے
دیکھیے وہ فرمائے کب ظہور پانی پر
یوں عقیلؔ بکھری ہیں آفتاب کی کرنیں
جیسے ہوں کچھ آئینے چور چور پانی پر