برائے نام کوئی رابطہ ہوا تو سہی
برائے نام کوئی رابطہ ہوا تو سہی
کہ ایک شخص مرے حال پر ہنسا تو سہی
ذرا سی دیر کو صدیوں کی خامشی تو گئی
نواح جاں سے کوئی شور سا اٹھا تو سہی
دل شکستہ کو موہوم سی امید تو تھی
مجھے نصیب نہیں تھا مگر وہ تھا تو سہی
کبھی تمام تو کر بد گمانیوں کا سفر
کسی بہانے کسی روز آزما تو سہی
یہ کیا کہ حرف و صدا کا تبادلہ بھی نہیں
کہاں ہے کیسا ہے اے دوست کچھ بتا تو سہی
ہر ایک دل کو محبت پسند ہونا ہے
عقیلؔ اب نہ سہی میں نہیں رہا تو سہی