اس کو میرے افسانے میں کیا جانے کیا بات ملی
اس کو میرے افسانے میں کیا جانے کیا بات ملی
چاند سے رخ پر غم کے بادل آنکھوں میں برسات ملی
بس اتنی سی بات تھی اس کی زلف ذرا لہرائی تھی
خوف زدہ ہر شام کا منظر سہمی سی ہر رات ملی
دولت اور شہرت لوگوں نے قسمت سے آگے پائی
اور مصیبت بھی ہم کو تو بس حسب اوقات ملی
وہ جس کو کچھ فکر نہیں ہے ہر غم سے انجان ہے جو
پگ پگ اس کی راہ گزر میں اشکوں کی بارات ملی
سب امیدیں ٹوٹ چکی تھیں دل تھا محو یاس عقیلؔ
اور دامن تھا پرزے پرزے جب ہم کو خیرات ملی