انوری بیگم کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    جانے کیوں کر اس قدر سہما ہوا ہے آئینہ

    جانے کیوں کر اس قدر سہما ہوا ہے آئینہ آئینے کو دیکھ کر بھی ڈر رہا ہے آئینہ کیا کوئی معصوم سی صورت نظر میں آ گئی کیوں سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہے آئینہ آپ اپنے آپ کو اس سے چھپا سکتے نہیں آپ کی اک اک ادا سے آشنا ہے آئینہ خواہشوں کے جال میں الجھا ہوا ہے ہر بشر کون کتنا بے غرض ہے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے طرز گفتگو پہ دل فدا ہو جائے گا

    اس کے طرز گفتگو پہ دل فدا ہو جائے گا ہاں مگر یہ دل کبھی صحرا نما ہو جائے گا ہو اگر ممکن صدف کی راہ دکھلا دے اسے ورنہ ہر قطرہ ہواؤں میں ہوا ہو جائے گا آدمی نے آج تک کھویا نہیں اپنا وجود آئینہ ٹوٹا اگر تو حادثہ ہو جائے گا باندھ لے رخت سفر جب فاصلے کا ڈر نہیں با عمل ہے جو بھی منزل ...

    مزید پڑھیے

    وہ چاند ابر سے جس وقت بے نقاب ہوا

    وہ چاند ابر سے جس وقت بے نقاب ہوا عجب شباب کے عالم میں انقلاب ہوا جنوں کے حصے میں صحرا نوردیاں آئیں تمام عمر کہاں عشق باریاب ہوا چمن میں نغمہ سرا کیوں کوئی نہیں ملتا ہوا تو کون سے موسم کا ہے عتاب ہوا مری زباں پہ تو حرف گلہ نہیں آیا وہ آپ اپنے عمل سے ہی آب آب ہوا سمجھ سکی نہ اسے ...

    مزید پڑھیے

6 نظم (Nazm)

    جادو

    زندگی ہموار راستے پر گرد و پیش سے بے نیاز رواں تھی اچانک راہ گزر نا ہموار ہوئی قدم گرتے سنبھلتے لڑکھڑاتے بڑھنے لگے آنکھیں کچھ کچھ بولنے بہت کچھ سمجھنے لگیں اور تب ڈرنے بھی لگیں یہ کس نے جادو کر دیا مجھ پر

    مزید پڑھیے

    تمنا

    مجھے مما میری نہ لوری سناؤ مجھے آپ اک کمپیوٹر دلاؤ تمنا ہے روبوٹ سب کو بناؤں میں ان انگلیوں پر جہاں کو نچاؤں ستاروں کو اتنا میں معذور کر دوں گزر گہہ بدلنے پہ مجبور کر دوں نہیں مجھ کو سننی وہ باتیں پرانی میں نقطوں سے اب خود بناؤں کہانی ملا تیس نقطے فقط اک بناؤں میں پھر دشمنوں پر ...

    مزید پڑھیے

    مغلوب اعتماد

    اور ہوائیں سکتے کے عالم میں کھڑی ہیں سمتیں بے زبان سی اک ایک کو دیکھ رہی ہیں بلندی پر اڑتا اعتماد کا طیارہ ضرورتوں کے پہاڑ سے ٹکراتا توازن کھو بیٹھا اور بکھر گیا پھر

    مزید پڑھیے

    پیغام آشتی

    پیچ دار پہاڑوں پر چڑھتے راستے ہانپنے لگے پیشانی پر جھلملاتے آبدار موتی پوچھے نیچے وادیوں میں دیکھا بادلوں کے لہراتے آنچل اوڑھے مخمور گنگناتی مسکراتی پہاڑوں کے قدم چومتی وادیوں کی آغوش میں مچلتی سبزہ زاروں سے اٹکھیلیاں کرتی نشے میں جھومتی آبشاروں کو گلے لگاتی پیغام آشتی ...

    مزید پڑھیے

    خاموش شکوے

    دونوں خاموش تھے کسی نے کسی سے کچھ نہیں کہا چہرے لہروں سے بیگانہ پر سکون تھے نظریں آنکھوں کی جھیل میں غوطہ زن تھیں مگر دل کے دریا میں طوفانوں کا شور تھا

    مزید پڑھیے

تمام