زمین زادیاں
پھوار سی برس رہی گھٹا کی نرمیوں تلے
فسوں طرازیٔ فضا کے سر میں سر ملا کے گا رہی
زمین زادیاں
نمو کی آنچ میں نہائی
نرم گیلی مٹیوں میں
دھان کے چراغ روپتی ہوئی
سنا رہی ہیں فصل نو بہار کی بشارتیں
درخت وجد میں ہیں یوں
کہ جیسے جھومتے ہوئے
شراب ارغواں کے صید مست
زمین زادیاں
ثنا و حمد کی نمی سے لب بھگو بھگو
نحوست و نگاہ بد
حسد کی آگ سے
تحفظ و امان و خیر کی دعائیں مانگتی ہوئی
سنا رہی ہیں گیت
کہ کوئی مژدہ خوشا
بہار خوش گلو کار راگ چھیڑتی ہوئی
زمین زادیاں سنا رہی ہیں گیت
سماعتیں کھلی رکھو
سنہری بالیوں میں جب
فراز لمس نازنیں سے لو پذیر
مہکتے دانے بج اٹھیں
تو سن سکو
زمین زادیاں سنا رہی ہیں گیت