ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اٹھو
سیلے کمرے سے باہر کو نکلو
وہاں ہے زمانہ تغیر پذیر
کہ ہم چاہ تاریک میں
اپنی آنکھیں نہ کھو دیں
اٹھیں جب
تو سب چیزیں بدلی ملیں
اور سارے تماشے ہمیں
اجنبی آنکھ سے گھورتے ہم سے پوچھیں
کہ تم کون ہو
کس عجائب کدے سے نکل آئے ہو
اور جب
اپنی جیبیں ٹٹولیں
تو سکے ہمارے زر و سیم کے
قیمتیں کھو چکے ہوں
ہمیں یہ خبر مل رہی ہو
کہ ہم عہد رفتہ کے صحرائے ہو میں کہیں
اپنے موہوم و مبہم ہیولے کی بھی
جانے کب کی نفی کر چکے