میں نے اک چیز بچا رکھی ہے
یہ خرابہ
کہ کوئی گنبد تاریک ہے یہ
کوئی سوراخ نہیں
کوہ سیہ کے اس پار آنکھ دیکھے کوئی تارا جگنو
اس خرابے کی سحر بھی کیا ہے
بیوگی
صبح کی چوکھٹ تھامے
اپنی پیشانی کی کھوئی ہوئی بندی میں گم
سرخ اگتے ہوئے سورج کو کھڑی گھورتی ہے
دن کا یہ حال کہ بس
دھول اڑتی ہے بدن میں دن بھر
جیٹھ دوپہر کی ویران ہتھیلی اوپر
فصل کاٹے ہوئے کھیتوں کے بگولے جیسے
زلزلے بخت خرابہ یہ جہاں
خوں سنی روحیں سسکتی ہیں دبی ملبوں میں
آسماں گہرے دھوئیں سے ہے بھرا
تم اگر آ سکو آ کر دیکھو
دل کو دہلاتے ہوئے
گہرے دھوئیں
اور دھماکوں کے گھنے شور کے بیچ
میں نے اک چیز بچا رکھی ہے
رات دیوار پہ
اک ننھے دیے کی صورت