اور دو آنکھیں

ندی رواں ہے
اوپر پل سے ریل گزرتی ہے
پل سے نیچے
صبح کا سورج جل دھارے پر
جھلمل دھوپ سے
سات سروں میں نظمیں لکھتا ہے


چاندی چاندی ریتیلے ساحل پر
تم قدموں سے پھول کھلاتی ہو
اور دو آنکھیں


اس بحرانی اندھے بہرے گونگے یگ میں
سرخ زمیں کی نم مٹی سے
دشت کی کھوئی خوشبو چنتی ہیں