اسی ہوائے بہار میں تم سے پھر ملوں گا

یہ وہم ہے تو برا نہیں ہے
جو خواب سمجھو تو خواب سمجھو
مگر ملوں گا
یقیں کے سورج کی راس تھامے


گھڑی کی سوئی گھما سکو تو
صدی کی
فصل بہار موسم کے در پہ روکو
جہاں ہوا نے بدن چھوا تھا
تو دست جاناں کی گوندھی مٹی
مہک اٹھی تھی


جہاں لبوں نے دعا پڑھی تو
زمیں کے سینے پہ پھول مہکے
پرند چہکے
کئی لکیریں کنار دریا
بچھی ہوئی ریت کی دری پر
کھنچی ملیں گی


درخت شاخان چٹان اوپر
رواں سمندر پہ انگلیوں سے
کسی کو لکھتا
کوئی ملے گا


وہیں پہ تم لوگ ٹھہر جانا
اسی ہوائے بہار میں تم سے پھر ملوں گا